حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید محمد مہدی بھیکپوری 25 ربیع الثانی سن ۱۲۶۹ ہجری میں اپنے ننہال بنگرہ ضلع مظفرپور میں پیدا ہوئے، آپ کے والدمولانا سید علی کا شمار اپنے زمانے کے بزرگ علماء میں ہوتا تھا۔آپ کے والد ماجد کو اولاد کی صحیح تربیت کی اہمیت کا اتنا احساس تھا کہ زمانے رضاعت ختم ہوتے ہیں آپ کو اور آپ کے چھوٹے بھائی مولانا حکیم ڈاکٹر سید محمد جواد کو اپنی نگرانی میں لے لیا اور تعلیم و تربیت کے تمام امور بنفس نفیس خود انجام دیتے تھے لیکن یہ محبت عقل کے تابع تھی اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے بچوں کی تعلیم اور تہذیب نفس میں تساہلی نہیں فرماتے تھے۔
علامہ 16/ سال کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے ، والد کی رحلت کے بعد آپ نے پٹنہ کا رخ کیا اور وہاں کچھ عرصہ مہربان اساتذہ سے کسب فیض کیا پھر اس کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران مختلف علماء کے سامنے زانوئے ادب طےکیے جنمیں تاج العلماء مولانا سید علی محمد ،مفتی محمد عباس موسوی، مولانا سید تصدق حسین کنتوری کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔
علامہ محمد مہدی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سنہ ۱۳۰۶ ہجری میں پہلے مظفرپور آئے اور محلہ کمرہ میں آپ نے نواب سید محمد تقی کے ساتھ ملکرایک مسجد اور عالیشان امام بارگاہ تعمیر کرایا اور بچوں کی تعلیم کے لئے مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی تاکہ تشنگان علوم سیراب ہوتے رہیں۔
علامہ سید محمد مہدی تقریبا ساری زندگی اسی مسجد، امام باڑہ اور مدرسے میں بحیثیت مدرس اعلی اور خطیب کی حیثیت سےمنسلک رہے۔ آپ مدرسہ ایمانیہ کے مدرس اعلی کی حیثیت سےاس وقت سے منسلک تھے جب مولانا سید عابد حسین کے کاندھوں پر مسجد کی پیش نمازی تھی۔
سنہ۱۳۲۰ہجری میں مولانا سید عابد حسین سلطان المدارس لکھنؤ تشریف لے گئے تو مدرسے کی ذمہ داریوں کے ساتھ مسجد کی امامت کی ذمہ داری بھی مولانا سید محمد مہدی کے کاندھوں پر آ گئی موصوف آپنی آخری عمر تک تمام ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔
آپ دو مرتبہ زیارات عتبات عالیات سے مشرف ہوئے۔ آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئےآیت اللہ مرزا سید محمدتقی شیرازی نے اجازہ روایات و امور حسبیہ سے نوازا، ہندوستان میں فقیہ اہلبیت آیت اللہ سید محمد باقر نے آپ کو مفصل اجازہ روایت عطا کیا جو مواعظ المتقین میں چھپا ہےاسی طرح عماد العلماء میر آغا نے بھی اجازہ امور حسبیہ مرحمت فرمایا ۔
مولانا نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا آپ کے آثار میں:سواء السبیل،حجة بالغہ،زمزمة الحجاج و مدینة الزیارات، تحفة الابرا،مواعظ المتقین،لواعج الاحزان اور اردو زبان میں مجالس کی کتاب لواعج الاحزان جس کا تاریخی نام مظہر المصائب ہےآج بھی زبان زدخاص و عام ہے اور مقبولیت کے پیش نظر آج بھی مسلسل شائع ہورہی ہے۔
مولانا سید محمد مہدی بہترین خطیب بھی تھے اور اس فن کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے ، آپ نےخطابت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے میدان خطابت میں کو اختیار کیا ۔ چنانچہ آپ نے شہروں قصبوں میں اپنی خطابت کا لوہا منویا اور ایسے مقامات اور علاقوں میں خطاب کیا جہاں لوگ دین و شریعت سے بلکل نا آشنا تھے۔
آپ نے اپنی خطابت میں آخرت سازی کا نمونہ پیش کیاہے ، ان کی خطابت کا مقصد دنیا سازی اور لوگوں کی واہ واہ نہیں تھا بلکہ آخرت سازی تھا اسی لئے آپ اپنے بیان میں دینی و شرعی مسائل اور موعظہ بیان فرماتے تھے۔
مولانا محمد مہدی خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ برجستہ شاعر بھی تھے آپ کو فارسی نظم اور نثر پر مہارت حاصل تھی ۔ آپ کی کتاب ''لواعج الاحزان '' میں نظم و نثر دونوں کے نمونے دیکھےجاسکتے ہیں ، آپ نے اس کتاب میں حمد و نعت کو نظم میں تحریر کیا ہے۔ اللہ نے موصوف کو ایک بیٹی اور ایک بیٹے سےنوازا جوحکیم محمد سجاد کے نام سے پہچانے گئے۔
سنہ 1340ہجری میں آپ پر فالج کا اثر ہوا علاج بعد اس قابل ہو گئے کہ پھر مظفر پور جا سکیں۔ لیکن دو تین برس بعد مرض نے دوبارہ شدت اختیار کر لی جس کی وجہ سے آپ کو اپنے وطن بھیکپور واپس آنا پڑا۔
آخر کار یہ علم و فضل کا چمکتا آفتاب 24 جمادی الثانی ۱۳۴۸ہجری بھیکپور میں غروب ہو گیا اور نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ اپنے برادر نسبتی حاجی صاحب کے تعمیر کردہ امام باڑہ کے صحن میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020
۞۞۞